شادی کے بعد میری بیوی اپنے ساتھ اپنی 15 سالہ بہن کو بھی لے آئی۔ ابتدا میں مجھے لگا کہ شاید چند دن کے لیے ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ بہن ہمارے ساتھ ہی رہنے لگی۔
وہ ہر وقت ہماری زندگی میں مداخلت کرنے لگی۔ کبھی کچن میں، کبھی ڈرائنگ روم میں اور یہاں تک کہ رات کو بھی ہمارے کمرے میں سو جاتی۔ میں کئی بار بیوی سے بات کر چکا تھا لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتی کہ "یہ ابھی چھوٹی ہے، اکیلی کمرے میں نہیں سو سکتی۔
معاملہ دن بہ دن میرے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ میں اور بیوی اکیلے وقت گزار ہی نہیں پاتے تھے۔
آخر کار، ایک رات غصے میں آ کر میں نے بیوی اور اس کی بہن کو کمرے میں بند کر دیا اور صبح دفتر چلا گیا۔ میرا خیال تھا کہ شاید بیوی کو احساس ہو کہ یہ معاملہ اب بہت بڑھ گیا ہے۔
لیکن جب شام کو واپس آیا اور کمرے کا دروازہ کھولا تو جو منظر میرے سامنے تھا اس نے میرے ہوش اڑا دیے۔
بیوی کی بہن بستر پر نہیں بلکہ فرش پر لیٹی ہوئی تھی، اور اس کے قریب ایک چھوٹا سا بستر بچھا ہوا تھا۔ اصل میں، وہ اپنی والدہ کی بیماری اور ماں کے بغیر رہنے کے ڈر کی وجہ سے رات کو اکیلی سونے سے گھبراتی تھی۔ بیوی نے اسے اپنے پاس اس لیے رکھا تاکہ وہ خوفزدہ نہ ہو۔
مجھے اپنی سوچ اور اپنے رویے پر شرمندگی ہوئی۔ میں نے جلدبازی میں غصے کا فیصلہ کر لیا تھا جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ میں نے بیوی اور اس کی بہن دونوں سے معافی مانگی اور فیصلہ کیا کہ میں اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا۔
اس دن کے بعد میں نے بہن کو بیٹی کی طرح سمجھا۔ وقت گزرتا گیا، وہ بڑی ہوئی اور پڑھائی میں آگے بڑھی۔ آج وہ ایک کامیاب ڈاکٹر ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اس کے مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیا۔
سبق
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ کبھی بھی صرف اپنی سوچ پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ بعض اوقات حالات کی حقیقت وہ نہیں ہوتی جو ہمیں نظر آتی ہے۔ صبر، برداشت اور سمجھداری سے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔