صدیوں سال پرانی بات ہے۔ شہر سے دور ایک پر سکون اور غریب گاؤں میں ناصر نام کا شخص رہتا تھا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ کسان اور زمین دار تھا۔ روزانہ صبح سویرے کھیتوں کا رخ کرتا اور شام ڈھلتے ہی گھر لوٹ آتا۔ اس کی زندگی بہت سادہ اور محنت سے بھری ہوئی تھی۔ وہ جو کماتا خود کھاتا اور جو بچتا دوسروں کے کام آتا۔ گاؤں میں بھی اس کا شمار نیک دل اور مددگار لوگوں میں ہوتا۔
لیکن ناصر کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش اس کے اپنے ہی گھر میں تھی۔ اس کی بیوی ایک ایسی عورت تھی جو بظاہر وفادار، محبت کرنے والی اور خوش اخلاق دکھائی دیتی تھی۔ مگر اندر سے وہ کچھ اور تھی۔ ناصر ایک نرم دل اور سادہ لوح انسان تھا۔ وہ بیوی کی چالاکیوں سے بے خبر تھا کیونکہ وہ کبھی شک کا موقع ہی نہیں دیتی تھی۔ روزانہ وقت پر ناشتہ دیتی، کھانے میں طرح طرح کے مزیدار پکوان بناتی اور ناصر کو کھیت جانے سے پہلے مسکرا کر رخصت کرتی۔
لیکن اس محبت بھرے رویے کے پیچھے نفرت کی آگ چھپی ہوئی تھی۔ اس کے دل میں ناصر کے لیے نہ کوئی محبت تھی نہ عزت۔ وہ ہر وقت یہ سوچتی کہ کاش وہ کسی امیر اور مشہور آدمی کی بیوی ہوتی تو زندگی کتنی بہتر ہوتی۔ جب ناصر کھیت میں ہوتا تو وہ اپنے دماغ میں شیطانی منصوبے بناتی کہ کسی طرح اس سیدھے سادھے کسان سے جان چھوٹے۔ منافقت کی انتہا یہ تھی کہ ہر ادا سے ناصر کو یہ باور کراتی کہ وہ دنیا کی سب سے اچھی بیوی ہے، اور ناصر بھی اس پر یقین کرتا، کبھی اس کے خلاف کوئی بات تک نہ سنتا۔
وقت گزرتا گیا اور اس عورت کی خواہشات اور غلط سوچوں نے اسے بالآخر اندھیرے راستے پر ڈال دیا۔ جس عورت کو محبت، وفاداری اور گھر کو سنوارنے والی ہونا چاہیے تھا، اسی نے اپنے ہی محبت بھرے آشیانے کو برباد کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ عورت اگر چاہے تو گھر کو جنت بنا سکتی ہے، اور اگر چاہے تو وہی گھر جہنم کا منظر بھی اختیار کر لیتا ہے۔
پہلا فریب: گدھے کو درخت پر باندھنا
ایک دن جب ناصر حسب معمول کھیتوں میں گیا ہوا تھا، اس کی بیوی نے ایک عجیب سی چال سوچی۔ اس نے محلے کے چند لفنگوں کو بلایا اور سرگوشی میں کہا کہ جب میرا شوہر کھیت میں ہو تو اس کا گدھا چرا کر قریبی درخت پر چڑھا دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا۔
لفنگوں نے ویسا ہی کیا۔ دوپہر کو وہ عورت حسب معمول کھانے کے ساتھ کھیت کی طرف گئی۔ ناصر نے کھانے کے ساتھ اسے خوش آمدید کہا لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ بیوی نے نرمی سے پوچھا:
"صاحب، آج آپ بڑے پریشان لگ رہے ہیں۔ سب خیریت تو ہے؟"
ناصر نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
"میری جان، تم خود ہی دیکھ لو۔ میرا گدھا درخت پر بندھا ہوا ہے۔ صبح سے سوچ رہا ہوں یہ کیسے ممکن ہے؟ گدھے تو اڑ نہیں سکتے!"
بیوی نے آنکھوں میں حیرت اور دل میں چالاکی کے ساتھ کہا:
"واہ! یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ چلو ہم دونوں مل کر اسے نیچے اتارتے ہیں۔"
دونوں نے بڑی مشکل سے گدھے کو نیچے اتارا۔ پھر جاتے ہوئے بیوی نے شوہر سے پیسوں کا مطالبہ کیا۔ ناصر جو اپنی بیوی سے محبت کرتا تھا، فوراً جیب سے جو کچھ تھا دے دیا۔ لیکن عورت کی حرص ختم ہونے والی کہاں تھی؟ اس نے فوراً کہا:
"یہ تو صرف پانچ دینار ہیں، مجھے اور چاہئیں۔ مجھے سو دینار چاہیے!"
ناصر نے کہا:
"ٹھیک ہے، جب گندم کے پیسے ملیں گے تو دے دوں گا۔"
گندم کے پیسے ملنے پر ناصر نے وعدہ نبھاتے ہوئے سو دینار بیوی کو دے دیے۔ مگر عورت نے ان میں سے آدھے چپکے سے الگ کر کے جمع کرنا شروع کر دیے
دوسرا فریب: کھیت میں مچھلیاں
چند دن بعد بیوی نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اس بار بھی مقصد پیسہ ہی تھا۔ اس نے صبح ناصر سے کہا:
"مجھے 200 دینار چاہیے، بہن بہت بیمار ہے، دوا دارو کے لیے چاہیے۔"
ناصر نے نرمی سے کہا:
"یہ بڑی رقم ہے مگر میں انتظام کر لوں گا۔"
دوسرے دن دوپہر کو وہ بیوی کھانے کے ساتھ تین بڑی مچھلیاں بھی لے گئی۔ کھانے کے بعد وہ چپکے سے وہ مچھلیاں کھیت میں چھپا آئی۔ جب ناصر زمین کھود رہا تھا تو اچانک ایک مچھلی نکلی، پھر دوسری، پھر تیسری۔ وہ حیرت زدہ ہو گیا اور زور سے بولا:
"ساحبا! جلدی آؤ، میرے کھیت سے مچھلیاں نکل رہی ہیں!"
بیوی نے فوراً ڈرامہ کرتے ہوئے کہا
"سبحان اللہ! یہ تو آپ کی کرامت ہے۔"
ھر اس نے یاد دلایا کہ 200 دینار چاہئیں۔ ناصر نے اپنی ساری جمع پونجی اور حتیٰ کہ گدھا تک بیچ کر 200 دینار دیے۔
سازش اور طلاق کا مطالبہ
چند دن بعد بیوی کا رویہ بدلنے لگا۔ وہ کھانے پینے کی فکر نہ کرتی، خاموش اور سرد رہتی۔ پھر ایک دن صاف صاف کہہ دیا:
"اگر میری خوشی چاہتے ہو تو مجھے طلاق دے دو۔"
ناصر پر یہ الفاظ قیامت کی طرح گرے۔ وہ صبر کرتا رہا، مگر عورت بار بار یہی بات دہراتی رہی۔ آخر کار جھگڑے شروع ہو گئے۔ وہ سونے کے زیور اور زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرنے لگی۔ ناصر نے برداشت کیا مگر ایک دن اس نے چیخ کر محلے والوں کو جمع کر لیا اور کہا کہ شوہر مجھے مارتا ہے۔
ناصر پر ظلم کے الزامات لگ گئے اور معاملہ قاضی کے پاس پہنچ گیا۔ قاضی کے سامنے ناصر نے اپنی بات رکھی کہ اس نے بیوی کو سو دینار اور دو سو دینار دیے ہیں۔ بیوی نے جھٹلا دیا اور قاضی کو کہا:
"کبھی سنا ہے گدھا درخت پر چڑھ گیا ہو؟ یا کھیت میں مچھلیاں نکل آئی ہوں؟ یہ آدمی پاگل ہے!"
قاضی نے غور کیا مگر ظاہری باتوں میں بیوی کا پلڑا بھاری رہا۔ دو دن بعد قاضی نے طلاق کا فیصلہ دے دی
انجام
کچھ دن بعد وہ عورت اسی لفنگے لڑکے سے شادی کر بیٹھی جس سے پہلے سے تعلق تھا۔ مگر شادی کے بعد وہی لڑکا اس پر ظلم کرنے لگا۔ نہ وہ کمانے کے قابل تھا نہ عزت کے۔ جو پیسے ناصر سے ملے تھے، وہ بھی ختم ہو گئے۔ آخرکار اس نے بھی عورت کو طلاق دے دی۔
ادھر ناصر نے صبر کا پھل پایا۔ ایک نیک سیرت عورت سے شادی کی۔ اللہ نے اسے اولاد، عزت اور سکون دیا۔
وہ عورت جو اپنے آپ کو بہت حسین اور قابل سمجھتی تھی، آخر کار دوسروں کی خیرات و زکوٰۃ پر جینے لگی۔ گاؤں کے لوگ بھی اس پر اعتبار نہ کرنا
سبق
دوستو! اس کہانی میں ہمارے لیے بہت سبق ہے۔
انسان کو اپنی قسمت پر صبر اور شکر کرنا چاہیے۔
ہر رشتے میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ضرور ہوتی ہیں۔
دولت، شہرت اور حسن وقتی چیزیں ہیں۔ اصل کامیابی وفاداری صبر اور سچائی ہے۔
جو اللہ نے دیا ہے، وہی ہمارے لیے بہتر ہے۔